ٓ
صلاح الدین سالارزئی
عجیب وقت آگیا کوئی کسی سے بات بھی نہیں کرسکتے ہیں پہلے راز کی بات کسی کی سامنے نہیں کی جاسکتی تھے ،ابھی لوگ آکیلے میں بھی بات نہیں کرسکتے ہیں ۔یہ بات اج کل قبائیلی علاقوں میں بہت عام ہیں کیونکہ ا’دھر کے دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں ۔بندہ اٹھایا گیا ۔۔کیوں؟ دیوار کے سامنے بات کرتے ہوئے دیوار کے کان نے سن لیا ۔بس اب اٹھایا گیا کس نے اٹھایاپتہ نہیں ۔کیوں پتہ نہیں جس طرح دیوار کے کان کا پتہ نہیں اسطرح اٹھانے والے کا پتہ نہیں ۔
یہ دیوار کی کا ن ڈر اور خوف نفسیاتی اور زہنی پریشانی کا نام ہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے قبائلی عوام کو مسلسل دیوار کیساتھ رگڑا جارہاہیں کبھی کس نام سے کبھی کس نام سے قبائلی عوام کیساتھ ناانصافیاں شروع ہیں
جب کسی بندے کو مارا جاتا ہے تو ان کے خاندان والے جب پتہ کرتاہے کی کس جرم کے پاداش میں ہمارا بندہ مارگیا ہے تو ان کو جواب ملتاہے کہ اس نے دیوار کیخلاف باتیں کی تھی جو دیوار کے کان نے سن لیا ۔آج کل جس کی موت دیوار کی کان کے وجہ سے ہو تو پھر سب اس کو سر خم قدرتِ آفت سمجھ کر خاموشی سے دفنادیتے ہیں ۔کیونکہ کوئی دوسرا دیوار کی کان کے ڈر کیوجہ سے بات نہیں کرسکتا ۔
یہ تو نقیب محسود مرحوم تھا جو کمزور دیوار کے کان کا نشانی بنا تو ساتھ لوگوں نے تھوڑا بہت شور مچایا ۔
صلاح الدین سالارزئی
عجیب وقت آگیا کوئی کسی سے بات بھی نہیں کرسکتے ہیں پہلے راز کی بات کسی کی سامنے نہیں کی جاسکتی تھے ،ابھی لوگ آکیلے میں بھی بات نہیں کرسکتے ہیں ۔یہ بات اج کل قبائیلی علاقوں میں بہت عام ہیں کیونکہ ا’دھر کے دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں ۔بندہ اٹھایا گیا ۔۔کیوں؟ دیوار کے سامنے بات کرتے ہوئے دیوار کے کان نے سن لیا ۔بس اب اٹھایا گیا کس نے اٹھایاپتہ نہیں ۔کیوں پتہ نہیں جس طرح دیوار کے کان کا پتہ نہیں اسطرح اٹھانے والے کا پتہ نہیں ۔
یہ دیوار کی کا ن ڈر اور خوف نفسیاتی اور زہنی پریشانی کا نام ہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے قبائلی عوام کو مسلسل دیوار کیساتھ رگڑا جارہاہیں کبھی کس نام سے کبھی کس نام سے قبائلی عوام کیساتھ ناانصافیاں شروع ہیں
جب کسی بندے کو مارا جاتا ہے تو ان کے خاندان والے جب پتہ کرتاہے کی کس جرم کے پاداش میں ہمارا بندہ مارگیا ہے تو ان کو جواب ملتاہے کہ اس نے دیوار کیخلاف باتیں کی تھی جو دیوار کے کان نے سن لیا ۔آج کل جس کی موت دیوار کی کان کے وجہ سے ہو تو پھر سب اس کو سر خم قدرتِ آفت سمجھ کر خاموشی سے دفنادیتے ہیں ۔کیونکہ کوئی دوسرا دیوار کی کان کے ڈر کیوجہ سے بات نہیں کرسکتا ۔
یہ تو نقیب محسود مرحوم تھا جو کمزور دیوار کے کان کا نشانی بنا تو ساتھ لوگوں نے تھوڑا بہت شور مچایا ۔
قبائلی نوجوانوں اگر اس کان کو ہمیشہ کے لئے بند کرنا ہیں تو پہلے اس دیوار کو گیرانا ہوگا ،منظور پشتون نے تو کوشش شروع کیا ہے لیکن اس کو صرف منظور بیچارا اکیلا نہیں گیراسکتا کیونکہ اس دیوار کی بنیادیں قبائلی خون پر رکھی گئے ہیں ۔اجمل بابا کی بات یا د اگئے کہ ہر کام ہم کرسکتے ہیں لیکن کیاکرو اخر پختون ہو اپنے آپ کو بھی نہیں سمجھ سکتا ہو ،، اگر ہم یہ پہلے سوچھتے کہ ایسا وقت نہ وآجائے کہ اس دیوار کو گیرانے کی ضرورت پڑئے تو پہلے سے اتنا مظبوت نہ بناتے ۔خیر ابھی جو بھی ہے اور جیسا بھی ہیں لیکن (کہ دا غوا مڑہ شی نو پہ تا وڑہ شی)ابھی ہم نے گیرانا ہے ۔اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوا دیوار آفت بندگیا ہے ۔جب کسی گھر میں بچے ڈر کیوجہ سے مرجاتے ہیں تو پہلے لوگ دم اور تعویذ سے کام کرتے ہیں اگر اس سے بھی نہ ہوجائے تو پھر ماہر جنات کو لے آتے ہیں وہی حربہ کام نہ آئے تو پھر گھر کو بنیادوں سے گھیرا دیتاہے تاکہ اس کی بنیادوں سے جناتوں کے گھونسلے ختم ہوجائے ایک اور اپشن بھی ہیں جس کو آخری اپشن ہی کہ دو کہ اس گھر کو چھوڑنا چاہئے ۔
ابھی اس خونے دیور کے لئے میرے پاس یہی علاج اور کچھ مشورے تھے ۔
Comments
Post a Comment