تحریر:نیک ذادہ شاھیلوگ فاٹا والوں کو قبائلی سمجھتے ہے بس!پاکستانی نہیں۔ قبائلی بھی اتنے ہی محب وطن ہے۔جتنے دوسرے صوبوں کے عوام ہے۔اِس ملک کے بنیاد میں وفادارِپاکستان قبائلی عوام کا خون شامل ہے ۔قبائلی عوام نے اس ملک کے خاطر اپنا جان ومال قربان کیا۔لیکن اس ملک پر کوئی آنچ نہیں آنے دیا۔جب بھی ملک پاکستان پر مشکل وقت آیا ہے۔توقبائلی عوام نے ہمیشہ اپنے فوج کے شانہ بشانہ کھڑےہںوکر دشمن کو بھرپور جواب دیا ہے۔
لیکن اب یہ قبائلی عوام کی غلطی تو نہیں ہے۔کہ وہ ایسے علاقے میں پیدا ہںوئے ہے۔جو بہت ساری اندرونی اور بیرونی دُشمنوں کی زد میں ہے۔قبائلی شخص ملک کے کسی بھی ہسپتال میں جاتا ہے۔تو ڈاکٹر سے پہلے انکا چیک اپ سیکورٹی والے کرتے ہے۔ کیا ملک کے کسی اور حِصے میں ایسا ہںوتا ہے؟ ملک کے دوسرے علاقوں میں گھر بنائے جاتے ہے۔مگر بدقسمتی سے یہاں بنائے گھر گِرائے جاتے ہے۔ قبائلی بچے جب'اسلام آباد،اور 'لاہںور، جیسے بڑے شہروں میں پڑھنے کیلئے جاتے ہے۔تو وہ گھر جا کر اپنے بزرگوں سے پوچھتے ہے۔کہ کیا ہم پاکستانی نہیں ہے؟کیا ہمارا علاقہ پاکستان تصوّر نہیں کیا جاتا؟
گورننس کے مسائل،لاپتہ افراد کا مسئلہ اور بیرونی سازشیں اپنی جگہ لیکن کبھی زمینی حقائق کو مدِنظر رکھتے ہںوئےنِچلی سطح سے تبدیلی کی کوشش کی گئیں؟
یہ سب سوالات پاکستان کے سیاستدانوں اور اِداروں کے منہ پر طمانچہ ہے۔
یہ سوالات تلخ مگر حقیقت ہے۔
پاکستان میں قومیت اور پھر نسلیت کے لحاظ سے بڑا تناؤ ہے۔ضرورت اِس امر کی ہے۔ کہ اِس تناؤکو متوازن اور منظم انداز سے قومی یکجہتی میں تبدیل کیا جائے۔فاٹا کے قبائلی عوام کی زمینی حقائق،وہاں کے لوگوں کی تاریخ اور ثقافت کو مدنظر رکھتے ہںوئے اُن کے بنیادی ضروریات کو پورا کیاجائے۔
دنیا میں گلوبلائزیشن اور علاقائی تعاون کے نظریات فروغ پارہے ہیں تو اِن حالات کا اثر یقیناً قبائلی علاقوں کے نظام پر پڑرہا ہے۔قبائل کے تعلیم یافتہ طبقے کا ایک بڑا حصہ سیاسی تبدیلی کا متمنی رہا،لیکن ان کی بات نقارخانے میں طوطے کی آواز ہی ٹھہری۔لیکن پھر بھی فاٹا اصلاحات کیلئے قبائلی نوجوانوں کا کِردار قابل تحسین ہںے۔اصل وجہ یہی ہے۔کہ قبائل کو سیاسی عوامل سے دور رکھا گیا اور یوں سیاسی عمل میں شرکت سے جو اقتصادی اور معاشرتی فوائد جنم لیتے ہیں۔اِن سے قبائلی محروم رہںے۔
اگر اب بھی حکومت وقت نے قبائلی علاقوں کو ملک کے دیگر حصوں کی طرح ترقی اور وہاں کے لوگوں کو آگے لانے کیلئے اقدامات نہیں کئیے۔تو انہیں نہ صرف قبائلیوں کی موجودہ بلکہ آئندہ نسلیں بھی معاف نہیں کریں گی۔اگر آج اِنفارمیشن ٹیکنالوجی اور عالم گیریت کے دور میں بھی قبائلی عوام دورِجاہلیت کے قانون اور اِنتظام کے شکنجےمیں قید رکھے گئےتو اس کے منفی اثرات سے ملک کے دیگر حصے بھی نہیں بچ سکتے،جیسا کہ ہم نے دیکھ بھی لیا اور دیکھ بھی رہںے ہیں۔
شاعر نے کیا خوب فرمایا ہںے۔
جب پڑاوقت گلستان پہ تو خون ہم نےدیا
اب بہارآئی توکہتے ہیں تیرا کام نہیں۔
great
ReplyDelete