الیکشن کے دن قریب آرہے ہیں،سیاستدان بھی اپنے اپنے نعرے اور ایجنڈے تیار کررہے ہیں۔کوئی ملک کو ایشین ٹائگر بنانے پر تولے ہیں کوئی پاکستان کو مافیاں اور کرپٹ آشرفیہ سے پاک کرنے کے عزم کرچکے ہیں،کچھ چیف جسٹس اور عدلیہ کیساتھ کھڑے ہونے کے کوشش کرتے ہیں اور بعض افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔کچھ جمہوریت کے تسلسل چاہتے ہیں اور چند آفراد نواز شریف اینڈ کمپنی کے غم میں برابر کے شریک ہونے کے دعویدار ہیں۔کے پی کے میں نعرے اور ایجنڈے مختلیف ہیں ،یہاں تو سیاستدان مردوں اور جنازوں کو عظیم بنانے کے چکر میں ہیں۔جہاں بھی کوئی فودگی ہوں،وہاں پر آپکوں ملوی کے جگہ سیاستدان بیان کرتے ہوئے نظر آئیگا ۔اس کے ساتھ ایک اور ایجنڈ ا اور جھنڈا بھی اگے جارہاہے ،وہ ہے اسلام اور مسلمانیت،یہودی اور کفری نظام کیخلاف اتحاد کیساتھ لڑنے کے تیاریاں ہورے ہیں۔اس کے ساتھ ہمارے اہل تشیع ،اہل حدیث،تبلغی،بریلوی،اہلسنت سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہورہے جو الیکشن سے پہلے سب ایک دوسرے کے اپر مرتد اور کفر کے فتوی لگاتے تھے ابھی سب مسلمان ہوگئے ہیں اور سب بھائی بھائی ہیں لیکن الیکشن تک۔۔۔۔۔۔۔
سندھ کے تو حال نہ پوچھوں وہاں تو پاکستان کے بات ہورہے ہیں،مصطفی کمال بھائی رو روکے پاگل ہوگیاہیں اس کو سندھ کے بچے یاد اگئے ہیں۔اس بیچارے نے پہلے کام کرنے کے کوشش کی تھی لیکن جو پیسہ وہ سندھ کے بچوں پر خرچ کرنا چاہتا تھا،وہ الطاف بھائی کے کہنے پر سندھی بچوں کو کسی بھی ناخوشگوار حادثے سے نمٹنے کے لئے تربیت دینے پر خرچ کی ہے۔سندھ اسمبلی کی سپیکر شہلارضا بیچاری ووٹ کے عظیم فریضے کے لئے مسجد کے سپیکر تک پہنچ گئے۔پارلیمنٹ میں تو سپیکر تھی لیکن مسجد میں بھی مہراب میں کھڑے ہوکر ہمارے دینی بھائیوں سے ووٹ لینے کا مطالبہ کیا۔۔
لیکن ان سارے ایجنڈوں میں خارجی اور ملکی سالیمیت والا ایجنڈا کہی بھی نظر نہیں آرہاہیں،ویسے بھی مسلم لیگ کے پچھلے پانچ سالوں میں ہم عالمی دنیا کے حالات سے غافل تھے۔ہمیں کیا سروکار ہیں ایران امریکہ تعلقات سے،ایران انڈیا،امریکہ اور روس یا سعودی ایرا ن،کوریاں اور امریکہ بس ہم نے اپنا ملک چلانا ہیں۔ہمیں نہ خارجہ پالیسی کے ضرورت ہیں اور نہ بین القوامی ڈیفلومیسی کے کیونکہ پہلے بھی ہماری کوئی خاص خارجہ پالیسی نہیں تھی۔ہمیں سی پیک مل گیا ہیں اور چین جیسے سپر طاقت جب بھی انڈیا یا ٹرمپ کو ئی شرارت کریگا،،چین منہ تھو ڑ جواب دیگا،پاک چین دوستی ذندہ باد۔
رہی بات معیشت کی وہ تو جیسے عمران خان اجائگا تو وہ ہمیں عظیم قوم بنادیگا تیس ہزار آرب قرضہ راتوں رات ختم ہوجائگا ،پاکستان میں تعلیم صحت اور سڑکیں بن جائگی،اس کے بعد ہم خلاء کے طرف موتوجہ ہوجائنگیں۔۔۔۔۔
کیس دور سے ہم گزر رہے ہیں ۔دنیا کہا سے کہا پہنچ گئے ہم میں بحثیت قوم کوئی شعور اور غیرت نہیں آیا۔ہر ادارے نے اپنے کام چھوڑ دیا ہیں۔فضولیات میں لگے ہیں۔جب تک ہم میں سے مراد ہر شہری میں شعور نہں آتا، ہم کبھی ترقی نہیں کرسکتے،عمران خان ہو یا نواز یا زرداری وہ بھی ہم نے چنے ہیں ِآگر ہم میں شعور نہیں ہیں تو ہم کیسے اچھی بندے کو منتخب کرسکتے ہیں۔مثال کے طور پر ایک اندھا دوسرے اندھے کو کیسے سڑک پار کرسکتے ہیں۔
جب ایک بندے کے ووٹ کا معیار یہ ہوں کہ پلان صاحب دس پہلے بازار سے گزر رہا تھا اور ہمارے دکان میں آیاتھا۔میرے ابو دادا سے ملا تھا۔تو اس قوم کے لیڈر رانا ثنااللہ اور عابد شر علی یا زرداری اور نواز شریف ہی ہوسکتا ہیں۔دنیا بھر میں الیکشن ہوتے ہیں،امریکی صدارتی انتخاب میں کوئی جنازوں اور فاتحوانیوں پر ووٹ نہیں دیتے بلکہ تعلیم صیحت روزگار کے پالیسوں پر ووٹ دیتے ہیں اور لیتے ہیں۔لیکن ہم چاچا، ماموں پلانے کو سپورٹ کر رہے ہیں اسلئے ہم بھی کررہے ہیں۔
اس بار سب سے درد مندانہ اپیل ہیں بیشک ووٹ دئے جس کو بھی دینا ہیں لیکن پلیز جنازوں اور فاتحوانیوں کے بنیا د پر نہیں۔کام کے بنیاد پر دیں جو بندہ اہل جو کام کرئے سکول بنائے ہسپتال بنائے۔جس کے پاس زندہ انسانوں قدر ہوں۔مردوں کو کوئی ضرورت نہیں ہوتی ایم این ایے اور وزیر صاب کی۔مردوں کو دعاوں کے ضرورت ہوتی ہیں۔۔
صلاح الدین سالارزئی
Comments
Post a Comment