Skip to main content

ایران کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرنے پر زور



ما نیٹرنگ ڈسک - امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو مشرق وسطیٰ کے دورے کے لیے ہفتے کو سعودی عرب پہنچے تھے۔ اس دورے کا مقصد امریکہ کی طرف سے ایران پر نئی تعزیرات عائد کرنے کے لیے حمایت حاصل کرنا ہے۔
پومپیو کے بطور وزیر خارجہ حلف اٹھانے کے دو دن کے بعد ریاض، یروشلم اور عمان کا ان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت ہورہا ہے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس بات کو فیصلہ کرنے والے ہیں کہ 2015 ء کے ایران جوہری معاہدے میں امریکہ کو شامل رہنا ہے یا اس سے الگ ہو جانا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ کے یورپی اتحادی فرانس، برطانیہ اور جرمنی اب بھی اس معاہدے کے حق میں ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق پومپیو کے ساتھ سفر کرنے والے ایک سینئر پالیسی مشیر برائن ہک نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ 
"ہم دنیا بھر کے ملکوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ہر اس فرد اور ادارے پر تعزیرات عائد کریں جو ایران کے میزائل پروگرام کے ساتھ منسلک ہیں یورپی ملکوں کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا زیادہ تر محور یہ معاملہ رہا ہے۔"
ہک نے کہا کہ ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے طرف سے سعودی عرب میں داغے جانے والے متعدد بیلسٹک میزائل مبینہ طور پر تہران نے فراہم کیے تھے اور ان کی وجہ سے ہفتے کو ایک شخص ہلاک ہوا۔ 2015ء میں ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے والے معاہدے کے عوض ایران پر عائد تعزیرات کو نرم کر دیا گیا تھا تاہم ایران کا میزائل پروگرام اس معاہدے کا حصہ نہیں تھا۔
ایران کے ساتھ میں طے کیے گئے اس جوہری معاہدے پر چھ عالمی طاقتوں نے دستخط کیے تھے جن میں امریکہ، روس، چین، فرانس، جرمنی اور برطانیہ شامل ہیں۔
ٹرمپ اس معاہدے کو "انتہائی خراب " قرار دے چکے ہیں اور وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اسے درست نا کیا تو وہ (ایران پر) دوبارہ تعزیرات عائد کر دیں گے۔
نیٹو ممالک کے وزیر خارجہ کے جمعہ کو برسلز میں ہونے والے اجلاس میں پومپیو نے کہا تھا کہ ٹرمپ نے اس معاہدے سے الگ ہونے سے متعلق فیصلہ نہیں کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ موجودہ معاہدے میں بعض بنیادی تبدیلیاں کیے بغیر امریکہ کا اس پر کاربند رہنے کا امکان نہیں۔a

Comments

Popular posts from this blog

اقوام متحدہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف آپریشن کو "نسل کشی" تصور کرتی ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی بنگلہ دیش کا دورہ کرنے والی ٹیم نے اتوار کو یہ عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کی نقل مکانی سے پیدا ہونے والے بحران کے حل کے لیے بھرپور کام کرے گی۔ بنگلہ دیش میں ان پناہ گزین کیمپوں اور سرحدی علاقوں میں سات لاکھ روہنگیاؤں نے پناہ لے رکھی ہے۔ یہاں کا دورہ کرنے والے سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ اس دورے کا مقصد صورتحال کا خود سے جائزہ لینا ہے۔ اقوام متحدہ میں روس کے سفیر دمتری پولنسکی کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے ہمراہ ٹیم میں شامل دیگر ارکان بحران سے چشم پوشی نہیں کریں گے۔ تاہم انھوں نے متنبہ کیا کہ اس مسئلے کا کوئی آسان حل نہیں ہے۔ سرحدی قصبے کوکس بازار میں پناہ گزین کیمپ کا دورہ کرنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "یہ بہت ضروری ہے کہ بنگلہ دیش اور میانمار میں آیا جائے اور ہر چیز کو خود دیکھا جائے۔ لیکن اس کا کوئی جادوئی حل نہیں، کوئی جادو کی چھڑی نہیں جس سے یہ سارے مسائل حل ہو جائیں۔" یہ ٹیم پیر کو اپنا تین روزہ دورہ مکمل کر کے میانمار کے لیے روانہ ہو جائے گی۔ میانمار سے روہنگیا مسلمانوں کا تازہ انخلا گزشتہ ...

Trump Presses for full Denuclearize

  U.S. President Donald Trump said he would maintain sanctions pressure on Pyongyang ahead of his own unprecedented meeting with Kim Jong Un. (Reuter ) The North’s KCNA news agency separately released the joint statement North Korean leader Kim Jong Un and South Korean President Moon Jae-in presented on Friday after the first summit in more than a decade between the two Koreas. Kim and Moon had pledged to work for “complete denuclearization” of the Korean peninsula and agreed on a common goal of a “nuclear-free” peninsula. “At the talks both sides had a candid and open-hearted exchange of views on the matters of mutual concern including the issues of improving the north-south relations, ensuring peace on the Korean Peninsula and the denuclearization of the peninsula,” KCNA said, reporting that the night wrapped up with a dinner with an “amicable atmosphere overflowing with feelings of blood relatives.” A day after the meeting between Kim and Moon produced dramatic imag...

Russia, Germany reaffirmed their commitment to preserving Iran nuclear deal: Kremlin

 Russian President Vladimir Putin and German Chancellor Angela Merkel have reaffirmed their commitment to preserving a 2015 landmark nuclear agreement despite the US move to pull out of it, the Kremlin says. Web Desk | The Russian and German leaders held a telephone conversation on Friday, few days after US President Donald Trump defied protests and last-minute lobbying by his European partners and unilaterally decided to withdraw from the historic nuclear accord, officially known as the Joint Comprehensive Plan of Action (JCPOA), and impose new sanctions on Tehran. "I am announcing today that the United States will withdraw from the Iran nuclear deal," Trump said Tuesday in a televised address from the White House. “This was a horrible one-sided deal that should have never, ever been made.” Kremlin quoted a statement issued following the call as saying that Putin and Merkel discussed the situation around the nuclear deal "following the unilateral withdrawal...